خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے کہ ميں اس فکر ميں رہتا ہوں ، ميری انتہا کيا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے ميں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبريا کيا ہے
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ چیتے کا جگر چاہیئے شاہیں کا تجسس جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ Total0 Facebook Twitter Pinterest LinkedIn
ہر حرف ہے سرمستی، ہر بات ہے رندانہ چھائی ہے مرے دل پر وہ نرگسِ مستانہ وہ اشک بہے غم میں یہ جاں ہوئی غرقِ خوں لبریز ہوا آخر یوں عمر کا پیمانہ آ ڈال مرے دل میں زلفوں کے یہ پیچ و خم آشفتہ سروں کا ہے آباد سیہ خانہ واللہ کشش کیا تھی […]
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا اک گھر میں مختصر بیاباں ضرور تھا اے وائے غفلت نگۂ […]
اک شخص با ضمیر مرا یار مصحفیؔ میری طرح وفا کا پرستار مصحفیؔ رہتا تھا کج کلاہ امیروں کے درمیاں یکسر لئے ہوئے مرا کردار مصحفیؔ دیتے ہیں داد غیر کو کب اہل لکھنؤ کب داد کا تھا ان سے طلب گار مصحفیؔ نا قدریٔ جہاں سے کئی بار آ کے تنگ اک عمر شعر […]
دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر ساری رات سوتے […]
بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دور ہٹ گیا پھر درمیان عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی پھر مجمع خواص گروہوں میں بٹ گیا کیا اب بھی تیری خاطر نازک پہ بار ہوں پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا یا اتنا سخت جان […]